یہ 1992ءکی بات ہے۔ میں فوج میں سروس کرتا تھا۔ دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے گھر آیا۔ نوجوانی کا دور تھا، دینی رغبت نہ تھی کہ نمازروزہ اور اعمال کی پابندی کرتا۔ سارا سارا دن دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں بیمار پڑ گیا۔ بخار اترنے کا نام نہ لیتا تھا ۔ایک رات اللہ کریم نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ رات کو بہت رویا، گھر والے سارے جاگ گئے۔ سب پریشان تھے۔ والدہ صا حبہ میرے لیے رات کو دعائیں مانگتی رہیں۔ خیر صبح میرا بخار اتر گیا۔ کیونکہ رات کو میں نے اللہ کریم کے حضور بہت توبہ کی اور دل سے عہد کیا کہ نماز نہ چھوڑوں گا۔ میں نے ڈاڑھی بھی رکھ لی اور دل سے عہد کیا کہ ڈاڑھی نہ منڈواﺅں گا۔ چھٹیاں ختم کر کے جب میں یونٹ میں پہنچا تو عمرے کے لیے سرکاری لیٹر آیا تھا۔ دو مفت ویکنسیاں تھیں جو حکومت کے خرچ پر عمرہ ادا کریں گے۔ میں نے بھی بسم اللہ پڑھ کر اپنا نام دیا۔ یہ بھی وضاحت کر دوں کہ دو ویکنسیاں تھیں اور 20/25 یونٹس جن میں ہر یونٹ میں ہزار سے اوپر جوان ہوتے ہیں۔ خیر پہلی قرعہ اندازی یونٹ میں ہوئی۔ اللہ نے وہاں سے سرخرو کیا اور میرا نام نکل آیا۔ اس کے بعد مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا میرا نام ہیڈ کوارٹر میں چلا گیا اور ایک دن ایسا مبارک آیا کہ وہاں سے بھی میرا نام نکل آیا اور خداوندکریم نے مجھے عمرہ کی سعادت سے بہرہ مند کیا۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایک غریب آدمی کہ جس کے ذاتی اخراجات تنخواہ سے مشکل سے پورے ہوتے ہیں، بغیر کسی ظاہری اسباب کے ذات باری تعالیٰ نے اپنے راستے میں قبول کیا اور یوں میں نے اسباب سفر باندھا کہ آرمی کے قافلے کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کیلئے روانہ ہوا۔ میرا دل ہواﺅں میں اڑا جا رہا تھا۔ اب وہاں کے حالات آپ کو کیا بتاﺅں۔ خدا وند کریم نے ایسی آسانیاں پیدا کیں کہ سارے ارکان ، حجراسود کا بوسہ، رکن یمانی اور مقام ابراہیم پر نوافل کا ادا کرنا اور مدینہ شریف میں مصلےٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو رکعت نوافل پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی، تہجد کی اذان سنتے ہی مسجد کی طرف دوڑ لگاتا۔ کیا بتاﺅں یہ تو وہی حضرات جانتے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کو ان زیارات سے مستفید کیا ہوگا۔رات کو میں مسجد الحرام کے برآمدے میں بیٹھا کعبہ شریف کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا کہ عجیب منظر میری آنکھوں کے سامنے آیا۔ لوگ کعبہ اللہ شریف کی دیواروں سے اور غلاف کعبہ سے لپٹ کر رو رہے تھے، فریاد کر رہے تھے اور اپنی حاجات مولیٰ کریم کو پیش کر رہے تھے اور ان کی یہ تمام فریادیں کعبہ شریف سے ایسے اوپر جا رہی تھیں جیسے نور کی لہریں اٹھتی ہیں۔ ایک عجیب منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں تو بس بے کل ہو کر دیکھ رہا تھا۔ کتنا وقت گزر گیا۔ مجھے معلوم ہی نہ ہوا کہ میرے آنسو میرے گالوں سے ہو کر ڈاڑھی میں سے گزر کر گریبان بھگو رہے تھے۔ تبھی میرے ساتھی نے میرے قریب آ کر مجھے متوجہ کیا۔ میں نے یہ منظر اس کو بھی دکھایا۔ وہ بھی بہت دیر دیکھتا رہا۔ آج بھی جب مجھے وہ منظر یاد آتا ہے تو دل کے اندر ایک عجیب سے کیفیت ہوتی ہے اور دل سینے کے اندر اس زیارت کے لیے پھر سے ایسے بھڑکتا ہے کہ جیسے ابھی سینہ توڑ کر مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں پہنچ جائے گا۔ آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لئے دعا فرمائیں کہ مجھے خداوندکریم پھر سے قبول فرما لیں اور میں ان کیفیات سے مستفید ہو سکوں حالانکہ آج بھی ظاہری اعتبار سے میں تہی دامان ہوں۔ یہ سب خوشیاں اللہ کریم نے اس لیے دیں کہ میںنے اس کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ وہ بڑی غیور ذات ہے۔ اپنے بندے کو کبھی خالی دامن واپسی نہیں کرتا بس اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ اس کو راضی کر لیں سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں